تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین سید ذیشان حیدر زیدی
ہجرت کے دسویں سال حجۃ الوداع سے واپسی پر اس روز واقعہ غدیر رونما ہوا،
[الغدیر، ج۱، ص۱۰، ۳۳، ۲۱۳، ۔۔ کافی، ج۴، ص۱۴۹، توضیح المقاصد، ص۳۱؛ العدد القویه، ص۱۶۶؛ مصباح کفعمی، ج۲، ص۶۰۱؛ مناقب ابن شهر آشوب، ج۳، ص۳۷؛ مصباح المتهجد، ص۷۵۴؛ بحار الانوار، ج۳۵، ص۱۵۰، ج۹۵، ص۱۸۹؛ فیض العلام، ص۱۲۲؛ تاریخ دمشق، ج۴۲، ص۲۳۳، ۲۳۴۔۔۔]
اور غدیر خم میں ایک لاکھ بیس ہزار حجاج کے تین روزہ اجتماع میں نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ نے اپنے ایک طولانی خطبہ میں علی بن ابی طالب اور گیارہ ائمہ علیہم السلام کو تا روز قیامت کے لئے امام کے عنوان سے پہچنوایا اور پورے اجتماع سے بیعت لی۔
عید اکبر آل محمّد علیہم السّلام:
اس دن کا شمار آل محمد علیہم السلام کی عظیم ترین عید میں ہوتا ہے، کیونکہ انبیاء، اوصیاء اور اولیاء کی زحمتوں کے بعد یہ بہت ہی اہم اور عظیم واقعہ ہے، جس میں اللہ کے حکم سے حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی وصایت بلا فصل کا اعلان عام ہوا ہے۔
یہ آسمانی عید کا دن ہے
اسی دن خداوند متعال نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے نجات دی۔
اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔
اسی دن خداوند متعال نے حضرت موسی علیہ السلام کو ساحروں پر غلبہ دیا۔
اسی دن حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی امّت کے سامنے ہارون اور انکی وفات کے بعد یوشع بن نون کو اپنا وصی بنایا۔
اسی دن حضرت عیسی علیہ السلام نے شمعون الصفا کو اپنا جانشیں بنایا۔
اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی رعایا کو آصف بن برخیا کی جانشینی پر گواہ بنایا۔[مسار الشیعه، ص۲۲؛ الاقبال، ج۲، ص۲۶۵؛ وسائل الشیعہ، ج۱۰، ص۴۴۵؛ فیض العلام، ص۱۲۵؛ زاد المعاد، ص۲۶۹؛ تقویم المحسنین، ص۱۴]
اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی زمین پر ٹھہری۔[امالی صدوق، ص۱۹۰؛ بحار الانوار، ج۴۵، ص۲۰۳]
یہ حضرت نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ کے ذریعہ اصحاب کے درمیان عقد اخوت کا دن ہے۔[مصباح کفعمی، ج۲، ص۱۲۵؛ تقویم المحسنین، ص۱۴؛ تقویم الائمه علیهم السّلام، ص۱۴]
اس دن انبیاء نے اپنے اوصیاء معین کیے، اور زیارت امیر المؤمنین علیه السّلام اس دن کے لئے وارد ہوئی ہے۔[بحار الانوار، ج۹۷، ص۳۸۴؛ فرحۃ الغری، ص۱۳۶]
غدیر میں شریک افراد
غدیر کا واقعہ کچھ اس طرح انجام پایا کہ سنہ ۱۰ ہجری میں شنبہ، چہار شنبہ یا ذی القعدہ اختتام سے پانچ دن قبل حضرت نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے غسل کیا اور ایک لاکھ بیس ہزار مسلمانوں کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔
اس سفر میں حضرت علیا مخدرہ صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللَّہ علیہا، خواہر امیر المؤمنین علیہ السّلام حضرت امّ ہانی، حضرت فاطمہ بنت حمزہ، حضرت امّ سلمہ و دیگر ازواج پیغمبر صلّی اللَّہ علیہ و آلہ منجملہ جناب عائشہ اور حفصہ شامل تھیں۔ حضرت امیر المؤمنین علیہ السّلام بھی کچھ لوگوں کے ساتھ یمن سے مکہ تشریف لائے۔[کافی، ج۴، ص۲۴۸؛ مناقب ابن شهر آشوب، ج۳، ص۲۵؛ الغدیر، ج۱، ص۹؛ طبقات الکبری، ج۲، ص۱۷۳؛ ارشاد الساری: ج۶، ص۴۲۶]
غدیر کے لئے حکم الٰہی:
اعمال حج کے انجام دینے کے بعد حکم الہی ہوا کہ علم و امانات انبیاء کو امیر المومنین علیہ السلام کے سپرد کردیں اور آپ کی ولایت کا اعلان فرمائیں۔
پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ نے اسقدر گریہ فرمایا، کہ محاسن مبارک اشکوں سے تر ہوگئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے خدا سے درخواست کہ انہیں منافقین کے شر سے محفوظ فرمائے۔[بحار الانوار، ج۳۷، ص۱۲۷]
پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ نے منیٰ میں دو بار خطبہ دیا، اور اس میں ولایت امیر المومنین علیہ السلام کی جانب اشارہ فرمایا۔ مسجد خیف میں جبرئیل نازل ہوئے کہ خدا فرماتا ہے:: «لوگوں کے سامنے علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان کریں، لیکن دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے کا وعدہ نہیں لائے۔
کراع الغمیم میں، دوبارہ جبرئیل امین نازل ہوئے اور آیت لے کر آئے کہ:
فَلَعَلَّکَ تارِکٌ بَعْضَ ما یُوحی إلَیْکَ وَ ضائِقٌ بِهِ صَدْرُکَ: آپ کی طرف جو وحی کی گئی ہے شاید آپ اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیں اور اس بات پر دل تنگ ہوں۔[سوره هود، آیت۱۲]
اس بار بھی امر ولایت پر تاکید کی گئی، لیکن دشمنوں سے حفاظت پر دلالت کی کوئی آیت نہ آئی، پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ نے جبرئیل کو منافقین کے متعلق بتایا اور اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔
۱۸/ ذی الحجہ کی صبح میں غدیر خم میں پہونچے، اور ایک بار پھر جبرئیل نازل ہوئے، اور سورہ مائدہ کی ۶۷ویں آیت لیکر آئے جو مولی الموالی امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت کی تبلیغ اور منافقین کے شر سے محفوظ ہونے پر مشتمل تھی۔
یا أیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَ إنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النّاسِ إنَّ اللَّهَ لا یَهْدِی الْقَوْمَ الْکافِرینَ: اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ منبر غدیر پر:
پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ ظہر کے وقت، نماز جماعت کے بعد اس منبر پر تشریف لے گئے جو دو پرانے درختوں کے نیچے سلمان، ابوذر، مقداد اور عمار کے ذریعہ بنایا گیا تھا اور امیر المومنین علیہ السلام کو منبر کے ایک زینہ نیچے کھڑا کیا، جبکہ کچھ منافقین منبر کے پاس موجود تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے توحید، اور صفات حق تعالی، بعض دین خدا کے حلال و حرام، نیز عرب کا ماضی، انکی زندگی اور انکے عقائد کے بارے میں بیان کرتے ہوئے اپنی زحمات کا ذکر کیا،
پھر فرمایا :قرآن و اہل بیت کے درمیان اٹوٹ رشتہ قائم ہے اور وہ کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے، یہاں تک کہ روز قیامت حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہونگے۔
اس کے بعد امیر المومنین علیہ السلام کے بعض فضائل و مناقب بیان فرمائے اور آپ علیہ السلام و دیگر ائمہ طاہرین کی امامت و ولایت کی کئی بار تاکید کی اس کے بعد فرمایا:
مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم یا ایها الرسول بلِّغ ما انزل الیک من ربّک ...
پھر فرمایا: اےلوگو! خدا نے جو مجھ پر نازل کیا یے میں نے اس کی تبلیغ میں کوتاہی نہیں کی اور اس آیت کے نزول کا سبب بتائے دیتا ہوں۔
جبرئیل دو بار مجھ پر نازل ہوئے اور خدا کی جانب سے امر کیا کہ اس مقام پر تمام قبیلہ کے ہر سفید و سیاہ کے سامنے اعلان کردوں کہ میرے بعد میرے وصی و خانشین اور امام علی بن ابی طالب ہیں۔
وہ خدا اور رسول کے بعد تمہارے آقا و مولا اور تم سب پر اولویت رکھنے والے ہیں۔ اس سلسلہ میں خدا نے مجھ پر وحی فرمائی ہے:
إنَّما وَلِیُّکُمُ اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذینَ آمَنُوا الَّذینَ یُقیمُونَ الصَّلاهَ وَ یُؤْتُونَ الزَّکاةَ وَ هُمْ راکِعُونَ۔ [سوره مائده : آیت ۵۵]
پھر فرمایا: میں نے جبرئیل سے چاہا کہ خدا سے درخواست کرے کہ اس امر کی تبلیغ پر معذور رکھے۔ کیونکہ مومنین کی قلّت اور منافقین اور اسلام کا مذاق بنانے والوں کی کثرت سے مطلع ہوں۔
اس کے بعد فرمایا: معاشر الناس و هو الامام المبین، اے لوگو! یہ امام مبین ہیں، ان کی ولایت سے منھ نہ ہھیرنا۔
فهو الذی یهدی الی الحق و یعمل به. یہ وہ ہیں جو حق کی ہدایت کرنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ہے۔
ان کو برتر جانو کہ خدا نے انہیں برتری دی ہے اور انہیں قبول کرو کہ خدا نے انہیں منصوب کیا ہے۔
اے لوگو! وہ خدا کی جانب سے امام ہیں۔
ان کی ولایت کا منکر بخشا نہیں جائے گا اور نہ اس کی توبہ قبول ہوگی۔
میرے بعد تمام مردوں اور عورتوں سے افضل و برتر علی ییں۔
جو میرے قول کا انکار کرے اور اسے قبول نہ کرے وہ ملعون و مغضوب الہی ہوگا۔ جان لو کہ جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ خدا فرماتا ہے :
جو شخص علی علیہ السلام سے دشمنی کرے اور اسے دوست نہ رکھے اس پر میری لعنت و غضب ہو۔
اس کے بعد فرمایا:خدایا تو گواہ رہنا، میں نے اپنی رسالت انجام دی، جو تو نے بھیجا تھا اسے پہونچا دیا ہے، اور سب پر واضح کر دیا ہے۔ جان لو کہ میرے بھائی علی بن ابی طالب کے سوا کوئی امیر المومنین نہیں۔ اور میرے بعد علی بن ابی طالب کے سوا کسی کے لئے امارتِ مومنین جائز نہیں ہوگی۔
علی بن ابی طالب علیہ السّلام کا تعارف
پھر علی علیہ السلام کے بازو کو پکڑا اور اسی عالم میں علی علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں کو آنحضرت کی جانب بلند کیا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے آپ علیہ السلام کو اس قدر بلند کیا کہ پاہائے مبارک نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ کے زانو تک آگئے۔
پھر فرمایا:«ألَستُ اُولی بِکُم مِن أنفُسِکُم» ؟
سب نے کہا :«اللّهمَّ بلی».
فرمایا :«هذا علی اخی و وصیی، من کنت مولاه فهذا علی مولاه و هو علی بن ابی طالب. جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا اور صاحب اختیار ہیں۔
ان کی منزلت وہی ہے جو میری منزلت تمہارے نزدیک ہے۔
خدایا! تو اسے دوست رکھنا جو اسے دوست رکھے اور اس سے دشمنی رکھنا جو اس سے دشمنی رکھے اور الہی فرمان کی تاکید اور لوگوں کے اقرار کے سلسلہ میں مزید کلمات کہے۔
پھر فرمایا: غدیر کے پیغام کو حاضرین غائبین تک اور والدین بچوں تک پہونچائیں
عملی اور زبانی بیعت
جیسے ہی آنحضرت منبر سے نیچے پہونچے، لوگوں نے بلند آواز اور ہاتھوں سے بیعت کی اور پیغمبر فرما رہے تھے:
«هنِّئونی هنِّئونی» مجھے تبریک پیش کرو۔
[الغدیر، ج۱، ص۲۷۴، ۲۸۴، ۳۷۵؛ مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۴۵؛ شرح احقاق الحق، ج۲، ص۴۷۲].
اس کے بعد حکم دیا کہ امیر المومنین علیہ السلام کے لئے ایک علاحدہ خیمہ نصب کریں اور فرمایا:
سبھی لوگ جائیں اور انہیں سلام کریں اور کہیں: السلام علیک یا امیر المؤمنین.
عمر بن الخطاب آئے اور یہ کہتے ہوئے سلام کیا:
بَخٍ بَخٍ یَا بنَ ابی طالب، أَصبَحتَ مَولای و مولی کلِّ مؤمنٍ و مؤمنةٍ۔
مبارک ہو مبارک ہو اے ابن ابی طالب، آپ میرے اور تمام مومنین و مومنات کے مولا ہوگئے۔
[الغدیر، ج۱، ۶۰کتب اہل سنت سے؛ غایۃ المرام، ج۱، ص۲۶۸؛ تاریخ دمشق، ج۴۲۔۔۔۔]
ابوبکر بھی اس تہنیت میں عمر بن الخطاب کے ساتھ شریک تھے۔
[الغدیر، ج۱، ص۱۱، ۲۷۳، ۲۸۱، ۲۸۲، ۔۔۔ فیض العلام، ص۱۲۳]
بیعت تین دن تک ہوتی رہی، اور ان تین دنوں میں نماز ظہر و عصر ساتھ میں ادا کی جاتی تھی، اور نماز کے بعد بیعت غروب تک جا رہتی تھی اور مغرب و عشاء کی نماز بھی ایک ساتھ ہوتی تھی۔
خواتین کی بیعت
خواتین سے بیعت کے لئے، پردہ کے پیچھے ایک پانی کا ظرف رکھا گیا، اس طریقہ سے کہ ظرف کا آدھا حصّہ پردہ کے ایک طرف اور آدھا دوسری طرف ہو۔ ایک طرف امیر المومنین علیہ السلام اپنا دست مبارک پانی میں رکھے ہوئے تھے، اور دوسری جانب خواتین پانی میں ہاتھ رکھتیں اور تبریک پیش کرتے ہوئے کہتی تھیں:
السلام علیک یا امیر المؤمنین. حضرت صدیقہ طاهرہ علیہا السلام بھی اس بزم میں جلوہ افروز تھیں۔
دوسری جانب زوجہ نبی ص حضرت عائشہ کی بیعت اذہان میں ثبت رہی یہاں تک کہ ایک دن وہ جنگ جمل میں آگئیں اور صاحب غدیر کے مد مقابل کھڑی ہوگئیں اور ذلّت کے ساتھ لشکر ولایت سے شکست کھائی۔
[بحار الانوار، ج۲۱، ص۳۸؛ عوالم، ۳/۱۵ ص۳۰۹]
غدیر میں اعلان ولایت کے بعد، جبرئیل نازل ہوئے اور یہ آیت نازل لے کر آئے: الْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَ أتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکُمُ اْلإِسْلامَ دیناً۔
[سوره مائده: آیت۳]
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے.
منبع: تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۱۸ ذی الحجۃ، ص۳۷۴۔